واسطے  حضرت  مرادِ  نیک  نام      عشق  اپنا  دے  مجھے  رب  الانعام        اپنی  الفت  سے  عطا  کر  سوز  و  ساز       اپنے  عرفاں  کے  سکھا  راز  و  نیاز      فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہر  گھڑی  درکار  ہے         فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہو  تو    بیڑا  پار  ہے    

    

حضرت  محمد مراد علی خاں رحمتہ  اللہ  علیہ 

 حضرت سلطان العارفین بایزید بسطامی

رحمتہ  اللہ  علیہ

       آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ  کی ولادت باسعادت ۱۳۶ ہجری بسطام شہر میں ہوئی آپ کے والدجن کانام عیسیٰ اور کنیت ابویزید ہے بسطام شہر کے جلیل القدر بزرگوں میں شمار ہوتے تھے۔۔ آپ کا اسم گرامی طیفوربا یزید ہے۔  آپ ایک کردی عالم کے شاگرد تھے، مگر بعد میں علم ظاہری کو ترک کرکے فقیری کی راہ اختیار کی۔ آپ کی طرف بہت سی خلاف واقع باتیں منسوب کی گئیں ہیں جن کی کوئی اصل حقیقت نہیں، جبکہ بعض حضرات نے ان کلمات کے ثبوت کی صورت میں اس کو حالت سکر و غلبہ پر حمل کیا ہے۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

              آپ کے متعلق حضرت جنید بغدادی   رحمتہ  اللہ  علیہ  فرمایا کرتے تھے کہ با یزید ہماری جماعت میں ایسے ہیں جیسے جبریل فرشتوں میں  .کہ میدان تو حید میں چلنے والوں کی انتہا با یزید کی ابتدا ہے۔ سالکین جب آپ کے ابتدائی قدم پر پہنچتے ہیں تو وہ ان کی انتہا ہوتی ہے۔ آپ حضرت معروف کرخی علیہ الرحمۃ کے پیر بھائی اور حضرت یحییٰ بن معاذ رازی رحمتہ اللہ علیہ کے ہمعصر ہیں۔

                حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ سے آپ نے روحانی فیض حاصل کیا۔ سید الطائفۃ حضرت جنید بغدادی علیہ الرحمۃ نے آپ کے متعلق فرمایا بایزید ہمارے درمیان اس طرح ہیں جس طرح ملائکہ میں حضرت جبریل علیہ السلام۔

           ایک رات آپ کی والدہ ماجدہ نے پانی طلب کیا آپ پانی لینے گئے ۔ کوزے میں پانی نہ تھا۔ گھڑا دیکھا تو وہ بھی خالی تھا۔ چنانچہ پانی لینے ندی پر چلے گئے۔ جب واپس آئے تو دیکھا والدہ صاحبہ سو چکی تھیں۔ شدید سردی کا موسم تھا۔ آپ پانی کا کوزہ ہاتھ میں اٹھائے کھڑے رہے۔ جب ووالدہ ماجدہ کی آنکھ کھلی تو پانی پیا اور آپ کو دعاؤں سے نوازا اور فرمایا کہ کوزہ  کیوں نہ نیچے رکھ دیا۔ عرض کی کہ میں ڈرتا رہا کہ آپ بیدار ہوکر پانی طلب فرمائیں گی اور میں حاضر نہ ہوں گا۔

           آپ فرماتے ہیں کہ ایک موقع پر والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ آدھا دروازہ بند کردو میں صبح تک یہی سوچتا رہا کہ کونسا آدھا دروازہ بند کروں، دائیں طرف کا یا بائیں طرف کا؟ صبح کے وقت مجھے وہ سب کچھ مل گیا جو میں ڈھونڈتا تھا ۔ پھر آپ کو وہ مقام حاصل ہوا کہ حضرت جنید بغدادی  رحمتہ  اللہ  علیہ   جیسے اکابر بھی پکار اُٹھے کہ با یزید ہماری جماعت میں ایسے ہیں جیسے جبریل فرشتوں میں  کہ میدان تو حید میں چلنے والوں کی انتہا با یزید کی ابتدا ہے۔ سالکین جب آپ کے ابتدائی قدم پر پہنچتے ہیں تو وہ ان کی انتہا ہوتی ہے۔

           ایک دفعہ کسی نے بتایا فلاں جگہ ایک بہت بڑے بزرگ ہیں ۔ آپ ان سے ملاقات کرنے گئے۔ جب ان کے پاس پہنچے تو انہوں نے قبلہ کی جانب تھوکا۔ آپ یہ دل خراش منظر دیکھ کر واپس آگئے اور فرمایاکہ اگراس شخص کو طریقت کی ذرا بھر بھی خبرہوتی تو اسطرح خلاف ادب کام نہ کرتا۔ آپ کے گھرسےمسجدتک کافاصلہ چالیس قدم تھا۔ لیکن بوجہ تعظیم مسجدآپ نےکبھی راستےمیں نہ تھوکا۔

               آپ حج کےلئےروانہ ہوئےتوبارہ سال میں کعبہ معظمہ پہنچےکیونکہ راستےمیں چندقدم  چلتےتوجائے نمازبچھاکردورکعت نماز پڑھتےاورفرماتےکہ یہ دنیاکےبادشاہوں کادربارنہیں کہ آدمی ایک دفعہ میں پہنچ جائے۔ آپ حج سےفارغ ہوکرواپس آگئےلیکن مدینہ منورہ حاضری نہ دی اورفرمایازیارت مدینہ کوحج کے تابع بناناخلاف ادب ہے۔ پھر آئندہ سال زیارت روزہ نبوی کےلئےحاضری دی۔

          آپ کے ملفوظات میں ہے کہ نیکوں کی صحبت نیک کام کرنے سے بدرجہا بہتر ہے اور بروں کی صحبت برے کام کرنے سے زیادہ نقصان دہ اور مہلک ہے۔ طریقہ طیفوریہ آپ ہی کی طرف منسوب ہے اور اس فرقہ کی بنیاد سکر و غلبہ پر ہے۔ یہ لوگ ہمیشہ بنفشۂ الٰہی میں مست سرشار رہتے ہیں۔ آپ کی طرف بھی جو غیر مناسب باتیں منسوب کی گئی ہیں یا تو انکی کوئی اصل نہیں، جبکہ ثبوت کی صورت میں تحقیقی علماء نے اس کو آپ کی حالت سکر و غلبہ حال پر حمل کیا ہے۔

آ پ نے ۱۵ شعبان ۲۶۱ ہجری کواس دار فانی کو الوداع کہا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔آپ  کا مزار شریف  بسطام میں  ہے۔